
احمد فراز کی اردو شاعری
اردو شاعری خصوصی طور پر اردو غزل میں استاد احمد فراز صاحب کا بدل اردو ادب کو پھر نہ مل سکا۔ استاد احمد فراز کو دنیا نے فراز کے نام سے آج بھی یاد رکھا ہوا ہے۔ استاد احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا مگر اپنے قلمی نام احمد فراز سے ہی دنیا میں جانے اور مانے جاتے ہیں۔ وکی پیڈیا پر تحریر معلومات کے مطابق استاد احمد فراز 12 جنوری، 1931 کو پیدا ہوا اور آپ نے 25، اگست 2008 تک اس جہان فانی میں عمر تمام کی۔
استاد احمد فراز پاکستان کے نامور شعرا میں سے ایک ہوئے۔ استاد کی غزلیں اور آزاد نظموں نے پوری دنیا میں اردو ادب کو خوبصورت الفاظ اوزان اور شاہستگی بخشی۔ استاد احمد فراز کی رومانی شاعری جدید دور کے نوجوانوں میں بھی بہت مقبول ہوئی اور نوجوان نسل میں استاد احمد فراز کی رومانی شاعری ہی استاد کا ایک ایسا کارنامہ تھا جس کی بدولت استاد احمد فراز کی انہیں غزلوں کو گایا بھی گیا۔ احمد فراز کی رومانی شاعری بطور دو لائن اردو شاعری آج بھی مشہور ہے۔
استاد احمد فراز مشہور اردو شاعر ہوئے اور اس کے ساتھ ساتھ سکرپٹ رائٹر بھی رہے۔ اکیدمی ادبیات اردو پاکستان میں بطور چیئر مین بھی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ استاد احمد فراز نے اپنی شاعری میں فراز کو بطور تخلص استعمال کیا۔ احمد فراز کو خدمات کے بدلے میں ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز جیسے ایواڈز سے بھی نوازا گیا۔ احمد فراز اسلام آباد میں 25 اگست 2008 کو وفات پا گئے۔
استاد احمد فراز کی ایک مشہور غزل اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں جو مجھے بہت پسند ہے یہاں تحریر ہے امید ہے آپ کو بھی پسند آئے گی۔
احمد فراز کی اردو شاعری سے ایک خوبصورت غزل
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
زندگی تیری عطا تھی سو ترے نام کی ہے
ہم نے جیسے بھی بسر کی تِرا احساں جاناں
دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہے فسردہ تُو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں
اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پیے بھی ترا چہرہ تھا گلستاں جاناں
آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں
مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں
ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں
ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں
اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں
سر بہ زانو ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں
جس کو دیکھو وہی زنجیر بہ پا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخلِ زنداں جاناں
اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں
ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسمِ ہجراں جاناں
ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں
استاد احمد فراز، پاکستان
امید ہے استاد احمد فراز صاحب کی یہ غزل آپ کو پسند آئی ہو گی۔ قلم قرطاس ڈاٹ کام آپ کی خدمت میں مزید اچھا اور معیاری کلام لانے کی کوشش کرتی رہے گی۔ مزید اردو شاعری دیکھنے کے لیے اردو شاعری و ادب کے زمرہ میں تشریف لائیں۔
Pingback: اردو شاعری - قلم قرطاس